محمد علی جناح نے جب پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا تو ان کی تنخواہ کیا تھی؟ گذشتہ چند برسوں سے یہ سوال بھی سوشل میڈیا پر گردش میں رہا ہے۔
ان کے علامتی طور پر ایک روپیہ تنخواہ لینے کی بات بار بار دہرائی جاتی ہے مگر یہ بات پہلی بار سنہ 1976 میں اس وقت منظرعام پر آئی تھی جب محمد علی جناح کی پیدائش کا صد سالہ جشن منایا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ بات مروج ہو گئی اور متعدد کتابوں میں نقل بھی ہوئی۔
مگر اس سلسلے میں حکومت پاکستان کا ریکارڈ کیا کہتا ہے اور محمد علی جناح کے پے بل کے مطابق ان کی ماہانہ تنخواہ کیا تھی اس سلسلے میں کسی نے بھی تحقیق کی زحمت نہیں اٹھائی۔
محمد علی جناح کی تنخواہ کی سرکاری فائل نیشنل آرکائیوز آف پاکستان اور قائد اعظم پیپر سیل اسلام آباد میں محفوظ ہے۔ اس فائل کے سرسری مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بطور گورنر جنرل ان کا باقاعدہ ماہانہ مشاہرہ مقرر تھا اور پے بل سرکاری طریقے پر پیش ہوتا تھا اور منظوری کے رسمی مراحل سے بھی باقاعدگی سے گزرتا تھا۔
محمد علی جناح کی مجموعی تنخواہ 10416 روپے 10 آنے اور 8 پائی تھی جس میں سے 6112 روپے سپر انکم ٹیکس کی مد میں حکومتی خزانے میں جمع ہو جاتے تھے اور قائد اعظم کے حصے میں 4304 روپے 10 آنے آتے تھے۔
یہ دستور ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہ کی فائل میں چارج لینے کی تاریخ اور نمونے کے دستخط موجود ہوتے ہیں چنانچہ محمد علی جناح سے بھی نمونے کے دستخط حاصل کیے گئے۔
انھوں نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالے جانے کا سرٹیفکیٹ بھی درج ذیل الفاظ میں اپنے دستخطوں سے مہیا کیا ’میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ میں نے پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے 15 اگست 1947ء کی صبح کو اختیار سنبھال لیا۔‘
بانی پاکستان کا دفتری عملہ ان کا پے بل باقاعدگی سے ان کے ملٹری سیکریٹری کرنل جے نولس کے حوالے کرتا تھا کہ وہ محمد علی جناح سے مقررہ جگہ پر دستخط کروا لیں۔ وہ ضابطے کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد یہ بل عملے کو واپس کر دیتے جو اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو کو بھیج دیا جاتا تھا۔ ایک کاپی قائداعظم کی ذاتی فائل میں رکھ دی جاتی جو اسسٹنٹ سیکریٹری ایف امین کے پاس ہوا کرتی تھی۔
محمد علی جناح کا پہلا پے بل اگست 1947 تا جنوری 1948 کا بنایا گیا۔ اس کی مجموعی رقم 57795 روپے اور 13 آنے تھی جو انکم ٹیکس اور سپر ٹیکس منہا کرنے کے بعد 34588 روپے پانچ آنے بنی۔
پے بل کی فائل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکس کی ادائیگی اہتمام کے ساتھ پورا پورا حساب لگا کر کی جاتی تھی، تاہم ان کی تنخواہ کا آخری حساب لگانے پر معلوم ہوتا کہ کٹوتی کہیں زیادہ تھی۔
پے بل کے فائل سے مطالعے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں قاعدہ قانون ہر چھوٹے بڑے کے لیے تھا اور قاعدے کی نشاندہی پر کوئی جُز بُز نہ ہوتا تھا۔
قائداعظم کا پے بل برائے اپریل 1948 اے جی پی آر کے اسسٹنٹ اکاؤنٹ آفیسر نے اس اعتراض کے ساتھ واپس کر دیا کہ ان کے نمونے کے دستخط، جو ان کے پے بل کی فائل میں موجود ہے، پے بل پر کیے گئے دستخطوں سے مختلف ہیں لہٰذا یا تو محمد علی جناح سے درخواست کی جائے کہ وہ بل پر دوبارہ دستخط کر دیں یا پھر قائد اعظم کے دستخطوں کی تصدیق ان کا ملٹری سیکریٹری خود کرے۔
بشکریہ ۔بی بی سی اردو