پاکستان: 40 سے زائد صحافیوں میں کورونا وائرس کی تصدیق

0
746

پاکستان کا شمار ان ممالک کی فہرست میں کیا جانے لگا ہے جہاں ان صحافیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جنھیں کووڈ-19 کا مرض لاحق ہو گیا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں 40 سے زائد صحافیوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی جبکہ کئی صحافی اپنی رپورٹ کے منتظر ہیں۔

پاکستان کے چند نجی چینلز سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سے کورونا وائرس پر رپورٹنگ کے دوران تجربات اور رائے جاننے کی کوشش کی گئی۔مجھے میسج آیا کہ آپ کی کورونا رپورٹ مثبت آئی ہے’
میڈیا میں جب کورونا کے مریض رپورٹ ہونا شروع ہوئے تو محکمہ صحت نے کہا کہ ہم سب صحافیوں اور آفس کے عملے کے ٹیسٹ کریں گے۔ چند روز قبل میرا بھی سمپیل لیا گیا۔ سیمپل لینے کے ایک دو دن بعد میں رپوٹنگ کر رہا تھا تو مجھے میسج آیا کہ آپ کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔

اس وقت میں بے حد پریشان ہوگیا۔ میں نے قریب میں واقع ایک نجی لیبارٹری گیا اور میں نے اپنی تسلی کے لیے وہاں دوبارہ ٹیسٹ کے لیے اپنا سیمپل دے دیا۔

اسی دوران میری والدہ کی کال آ گئی جنھوں نے بتایا کہ گھر آجاؤ محکمہ صحت والے آئے ہوئے ہیں تمھیں لے جانے کے لیے۔ جب میں گھر پہنچا تو میرے گھر کے باہر محکمہ صحت کے کچھ لوگ کھڑے تھے اور ایمبولینس والا مسلسل ہوٹر بجائے جا رہا تھا۔ میں پہلے تو اسے کہا کہ یہ سائرن تو بند کریں آپ کیوں پورے محلے کو تنگ کر رہے ہیں۔
بہرحال، میں نے اپنا سامان لیا اور انھوں نے مجھے پی کے ایل آئی ہسپتال میں شفٹ کر دیا۔

ہسپتال میں مجھ سے پوچھا گیا کہ کہ آپ کو کورونا کہاں سے لگا؟ میں نے کہا مجھے کیا پتا کہاں سے لگا۔ پھر اس نے کچھ مزید معلومات لی اور وہ چلا گیا۔ 12 گھنٹے بعد مجھے نجی لیبارٹری کی رپورٹ موصول ہوئی جس میں لکھا تھا کہ میرے سیمپل میں کورونا وائرس نہیں ہے۔

جب میں نے ہسپتال انتظامیہ کو بتایا کہ تو انھوں نے کچھ دیر بعد میرا سیمپل دوبارہ لیا اور اس کی رپورٹ بھی منفی تھی۔ میں اسی وقت سیکریٹری ہیلتھ پنجاب کو فون کیا تو انھوں نے مجھے کہا کہ ایسا ہوتا تو نہیں ہے پتا نہیں یہ کیسے ہوا ہے۔

میں ان سے کہا کہ مجھے آپ نے تین دن کورونا وارڈ میں رکھا ہے اگر مجھے نہیں بھی ہونا تھا تو اب یقیناً ہو گیا ہو گیا۔ اوپر سے میرے گھر اور محلے میں تماشہ الگ لگایا۔ اس سے بہتر تھا کہ مجھے میرے گھر پر ہی آئسولیٹ کر دیتے۔ دو ٹیسٹ منفی آنے کے بعد مجھے انھوں نے گھر بھیج دیا اور اب میں پچھلے چھ دن سے اپنے گھر میں ہی آئسولیٹ ہوں۔’
میں اب بھی کورونا کے باعث سیل کیے جانے والے علاقوں سے رپورٹ کرتی ہوں. ایک نجی چینل کی رپورٹر نے بتایا کہ ہم روزانہ آٹھ سے دس گھنٹوں کی ڈیوٹی کرتے ہیں۔ جس میں تقریباً پانچ سے چھ گھنٹے ہمارے آفس سے باہر ہی گزرتے ہیں۔ صحت کے شعبے پر رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے مجھ پر آج کل کام کا دباؤ کافی زیادہ بڑھ گیا ہے۔

اس رپورٹر کا کہنا تھا کہ انھیں نیوز ڈیسک سے روزانہ روزانہ ‘عجیب و غریب فرمائشیں آتی ہیں۔’

انھوں نے بتایا کہ جس سے کورونا پھیلا ہے تب سے لے کر اب آفس کی طرف سے عملے کو کسی قسم کی حفاظتی کٹس نہیں دی گئی ہیں۔

‘مجھے یاد ہے کہ جب کورونا شروع ہوا تھا تو مجھےزبردستی لاہور کے میؤ ہسپتال بھیجا گیا کہ جا کر آیسولیشن وارڈ سے براہ راست خبریں نشر کریں جو کہ میں نے کی۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘پہلے تو یہ صورتحال تھی کہ پاکستان میں کورونا کے بارے میں.لوگوں کو اور ہمیں بھی اتنا زیادہ پتا نہیں تھا۔ لیکن اب جب سب کو معلوم ہے اور اس وائرس کی سنگینی کا بھی علم ہے اس کے باوجود بھی ہمارے آفس کے لوگ مجھے اور باقی صحافیوں کو روزانہ کی بنیاد پر رش میں رپورٹنگ کے لیے بھجتے ہیں۔’

انکا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے چینل کو کئی بار درخواست کی کہ ایسے مت بھیجا کریں تو جواب ملتا ہے کہ پلیز کردیں دیکھیں نوکری بھی تو کرنی ہے۔ ‘ابھی دو روز پہلے ہی میں ایک سیل کیے گئے علاقے سے رپورٹنگ کرکے آئی ہوں’

انھوں نے بتایا کہ ان کی دفتر میں جب چند لوگ کورونا وائرس کا شکار ہونے لگے تو یہ کہا گیا کہ اب شفٹوں میں کام ہوگا۔

‘جب یہ سلسہ شروع ہوا تو ہمیں بتایا گیا کہ تین دن دفتر اور تین دن گھر سے کام ہوگا۔ ایک ہفتے تک تو یہی معمول رہا پھر اس کے بعد وہی سب دوبارہ شروع ہو گیا اور اب ہم چھ دن ہی دفتر جا رہے ہیں۔’
مجھے روزانہ صبح صبح میسج آتا تھا کہ آج ہسپتال سے رپورٹ کریں’
میں شروع سے ہی بطور ہیلتھ رپورٹر کام کر رہی ہوں اور جس وقت سے کورونا شروع ہوا تھا تو میں مجھے روزانہ آفس سے پیغام آتا تھا کہ ہسپتال سے رپورٹ کر دیں۔ م

میری کورونا کے بارے میں ڈاکٹرز اور ماہرین صحت سے اکثر بات چیت ہوتی تھی اس لیے مجھے اس وائرس کی سنگینی کا اندازہ ہے۔ میں نے شروع دن سے ہی کام کے لیے اپنی ذاتی گاڑی کا استعمال کیا۔

اور جب بھی آفس والے اسی فرمائش کرتے تھے تو میں صاف جواب دے دیتی تھی کہ بیشک نوکری سے نکال دو لیکن میں اپنی ہسپتال کے اندر جا کر رپورٹ نہیں کروں گی جس کی وجہ سے میں ابھی تک محفوظ ہوں۔

صحافيوں کی حفاظت پر بین الااقومی تنظمیوں کے تحفظات
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ موجودہ بحران کے دوران عوام کو آگاہ کرنے میں صحافیوں کا کردار بہت اہم ہے اور صحافیوں کے کام کی وجہ سے ہی ہم بہت ہی جانیں بچا سکتے ہیں۔

صحافیوں کی زندگی اور ذہنی صحت کا خیال رکھنا تمام ملکوں کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے اس لیے کسی بھی صحافی کو رپورٹنگ پر بھیجنے سے پہلے اس بات ہو یقینی بنایا جائے کہ انھیں تمام حفاظتی سامان دیا جائے۔

اس کے علاوہ صحافتی تنظیمیں رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) اور فریڈم نیٹ ورک پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں انھوں نے پاکستان میں کورونا وائرس کے پاکستانی صحافیوں میں تیزی سے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے بہت سے ایسے میڈیا آفسز ہیں جہاں کورونا وائرس بڑی تعداد میں صحافیوں میں پایا گیا ہے جو ایک خطرناک بات ہے۔بشکریہ بی بی سی
پاکستان میں نجی ٹیلیویژن چینل اے آر وائی کے بانی سلمان اقبال نے کہا ہے کہ ان کے ادارے سے وابستہ عملے کے 119 اراکین کے کورونا وائرس ٹیسٹ کروائے گئے ہیں جن میں سے 12 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ان کا کہنا تھا کہ 52 افراد کے ٹیسٹ کے ابھی نتائج آنا باقی ہیں جبکہ 55 افراد کے نتائج منفی آئے ہیں۔

یاد رہے کہ اے آر وائی سے وابستہ ملازمین کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد اسلام آباد آفس کو بند کر دیا گیا تھا۔جیوٹی وی کوئٹہ میں ایک رپورٹر کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر دفتر بند کردیا گیا.

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here