امتحانات کی منسوخی، غور کی ضرورت ہے… کاشف بشیر کاشف

0
737

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

وقتی طور پر سب خوش نظر آتے ہیں اور کیوں نہ ہوں، حکومت نے میٹرک اور انٹر کے امتحانات منسوخ کرتے ہوئے سب کو سابقہ نتائج کی بنیاد پر پاس کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ بھی حکومت وقت نے اضطراب، جلد بازی اور حسب سابق اپنے رویوں کے عین مطابق کیا ہے۔ طلبا کی اکثریت اس فیصلے پر خوش نظر آتی ہے مگر ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنھیں کامیابی کی دور دور تک امید نظر نہیں آتی تھی اور حکومتی فیصلے کی صورت میں انھیں غیب مدد حاصل ہو گئی ہے۔حکومت پاکستان “کرونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے” کا نعرہ لگاتے لگاتے اپنے باطنی خوف کا نزلہ طلبا پر گراتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ کرنے جارہی ہے جس کی بنا پر مستقبل ہمارا امتحانی نظام جو پہلے ہی رٹے کو فروغ دے رہا تھا طلبا میں اپنی رہی ساکھ بھی کھو دے گا۔اس فیصلے پر لڈیاں ڈالنے والے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ امتحانات طلبا اور اساتذہ کی زندگی سے زیادہ اہم نہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ہمیں “کرونا ” کی صورت میں ایک ایسی آفت کا سامنا ہے جس کا فوری علاج نظر نہیں آرہا ۔ ہم اس “وبا” کے پس منظر میں زیر بحث آنے والے مختلف متنازعہ ایجنڈوں پر صرف نظر کرتے ہوئے غور کریں تو حکومت کا یہ فیصلہ ہمیں جلد بازی اور بزعم خود حماقت معلوم ہو رہا ہے۔ فیصلہ کرتے ہوئے حکومت نے لگے بندے جن اصحاب سے مشورہ کیا ان میں شاید ہی کوئی ماہر تعلیم شامل ہو۔ دنیا جس نہج پر جا رہی ہے وہاں “وباؤں” کے امکانات آنے والے دنوں میں بڑھنے کا عندیہ دے رہے ہیں مگر پہلے قدم پر ہتھیار ڈال کر ہم نے آنے والی نسلوں پر ایک نفسیاتی عفریت مسلط کر دیا ہے جو ہمارے نظام تعلیم کو خس و خاشاک زمانے کی نذر کر دے گا۔ شعبہ تعلیم خصوصاً شعبہ امتحانات سے منسلک ہونے کی بنا پر اپنے تجربے کی روشنی میں میں سمجھتا ہوں کہ امتحانات کا انعقاد مرحلہ وار مختلف طریقوں سے ممکن ہے اور حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
1۔ ورچوئل یونیورسٹی طرز کا کوئز سسٹم جس میں طلباء کو مرضی کی ڈیٹ شیٹ کے مطابق آن لائن امتحان لیا جائے۔
2۔ مضمون کے اعتبار سے ہر تعلیمی بورڈ متعلقہ مضمون کے 4 پیپر تیار کروائے اور بورڈ سے الحاق شدہ ہرسکول/کالج میں بورڈ کا نگران عمل تعینات کیا جائے اور 10 کمروں میں 50 طلباء کا پیپر رکھا جائے۔
3۔ دہم جماعت کے امتحانات ہو چکے ان کی مارکنگ اگست میں کروا ئی جائے اور پریکٹیکل کے نمبرز تھیوری کی بنیاد پر دیے جائیں ۔
4۔ بارہویں جماعت امتحانات کی منسوخی سے زیادہ متاثر ہو گی۔ میڈیکل اور انجینئرنگ کے طلبا و طالبات کے داخلوں کا انحصار انھی امتحانات پر ہے۔ اگر امتحانات کے بغیر طلبا کو پروموٹ کیا جات ہے تو سال اول میں بعض طلباء مارکنگ اور میٹرک کے بعد ایف ۔ایس سی میں انگریزی میڈیم میں آنے کی وجہ سے کم نمبر لے پائے تھے ان سے زیادتی ہے۔ یہاں بعض طلباء کمبائن امتحان بھی دے رہے تھے انھیںپاس کرنے کا کوئی فارمولا مرتب نہیں ہو سکتا۔لہذاٰ بارہویں کے امتحان منسوخ کرنے کے فیصلے کو ٹھنڈے دل ودماغ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نمبر بڑھانے کے لیے Repeat کرنے والوں کے لیے بھی امتحانات کی منسوخی حوصلہ شکن ثابت ہوگی۔خصوصاً انٹری ٹیسٹ کے انعقاد کے بعد میرٹ بناتے ہوئے سابقہ کلاس کے رزلٹ سے پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اور داخلوں کے دوران سفارش اور رشوت کلچر اور میرٹ کی پامالی کا بھی امکان ہے۔یاد رکھیے کہ کرونا کی وجہ سے لوگ خصوصاً طلبا ہیجانی کیفیت کا شکار ہیں۔ اس کے نتائج بدترین ہو سکتے ہیں۔
5۔امتحانات کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ طویل مدتی بنایا جا سکتا ہے۔ طلبا ء کی تعداد خصوصاً لازمی پرچوں میں ہر سنٹر پر50 سے زائد نہ ہو اور ہر پرچہ ایک بورڈ میں تحصیل، ضلع کی بنیاد پر 4 دن میں مرحلہ وار تعداد کے اعتبار سے رکھا جائے۔
6۔قرنطینہ کی طرز پر طلبا و طالبات کو اپنے ہی تعلیمی اداروں میں( امتحانی مدت کے دوران )رکھا جاسکتا ہے اور ان سے بورڈ ز کا عملہ اپنی نگرانی میں امتحانات لے سکتا ہے۔
7۔کرونا سے مسجد، مدرسہ اور سکول ہی کو خطرہ نہیں باقی شعبہ ہائے زندگی بھی اس سے متاثر ہیں مگر حکومت کا تمام تر زور ان دو اداروں پر ٹوٹ رہا ہے۔ منڈیوں میں رش ہے۔ گلی محلے ٹاک شوز کی آماجگاہ بنے نظر آتے ہیں۔ راشن کی تقسیم کا سلسلہ بلا خوف و خطر رش کی حالت میں جاری ہے۔کچہریاں اور عدالتیں سائلین اور وکلاء سے بھر پڑی ہیں۔ یاد رہے اساتذہ اس ضمن میں حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز کے اطلاق میں موثر کردار ادا کر کے امتحانات کا انعقاد ممکن بنا سکتے ہیں۔حکومت ہر تعلیمی ادارے کو وسائل فراہم کرے اور نجی تعلیمی اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ وسائل خود پیدا کریں جن کی مدد سے احتیاطی تدابیر کو لاگو کیا جاسکے۔
یہاں دلچسپ امر ہے کہ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوکر عملی زندگی میں ڈاکٹر، انجینئر اور دیگر شعبوں میں نام کمانے والے طلباء کی اکثریت کی کامیابی کے پس منظر میں استاد کا بھرپور کردار ہوتا ہے۔مگر صاحب اولاد ہونے پر یہی لوگ استاد کامذاق اڑاتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ چھٹیاں استاد کو ہوتی ہیں۔”کرونا” سے متاثرہ ان تعطیلات پر بھی استاد کو “آرام طلب” ہونے کا طعنہ دیا جارہا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ چھٹیاں ہمیشہ بچوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ گرمی ،سردی ہو یا دہشت گردی کی چھٹیاں ، کہیں بچوں کی قوت برداشت کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور کہیں ان کا جانی تحفظ۔نجی اداروں کے اساتذہ اس دوران بھی حاضر رہتے ہیں اور سرکاری اساتذہ کو بھی متعلقہ افسران کبھی دفتر میں بلواتے ہیں اور کبھی ڈینگی،انسداد پولیو مہم، داخلہ مہم اورٹریننگ کے نام پر انھیں بلوایا جاتا ہے۔استاد 17 ویں سکیل کا ہو یا 21 ویں کا اسے وہ سہولیات حاصل نہیں جو 9ویں سکیل کے اے ایس آئی اور عدالت کے سٹینو گرافر کو حاصل ہیں۔اساتذہ سیلاب، زلزلہ،مردم شماری، انتخابات،دہشت گردی اور دیگر اہم مسائل میں آن ڈیوٹی ہوتے ہیں۔کنوئنس الاؤنس ان کا کاٹا جاتا ہے۔ مشاہرے باقی سرکاری ملازمین سے کم ہیں۔ نجی اداروں میں تو حال اور بھی برا ہے۔ مگر نجی اداروں نے روز گار کے مواقع پیدا کر کے حکومت کا اپنے تئیں ساتھ بھی دیا ہے۔
ان حالات میں 15 جولائی تک تعلیمی اداروں کی بندش نجی ا داروں سے منسلک اساتذہ کے چولہے بجھا دے گی۔ درمیانے اور نچلے درجے کے گلی محلہ سکول مالکان کا دیوالہ نکل جائے گا۔ یہاں لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تعلیم کمرشل کیوں ہے؟ تو جناب من! عرض خدمت ہے کہ ہمارے ہاں ہر چیز کمرشل ہے۔ فی زمانہ گلوبلائزیشن نے ہمیں اس بھٹی میں لا جھونکا ہے۔ پیٹ ہر شخص کو لگا ہوا ہے ۔ ہمارےہاں استاد کو وہ درجہ حاصل نہیں جو اسلام اور اس کے بعد مغرب نے اسے دیا ہے۔ خدارا! مار نہیں پیار کے بعد امتحانات کی منسوخی کا عمل بچے کو لاڈور کر دے گا۔ مدرسہ، سکول، مدرس اور معلم کے ساتھ ساتھ تعلیمی اور امتحانی نظام کا رہا سانچہ زمین بوس ہو جائے گا۔مار نہیں پیار نے دو عشروں میں اخلاقیات سے عاری نسل کی آبیاری کی ہے اور امتحانات کی منسوخی کا عمل احساس محرومی، نفسیاتی لاچاری اور چور دروازوں کی نئی راہیں دریافت کرنے میں نئی نسل کا زادراہ بن جائے گا۔ امتحان کی منسوخی سے اساتذہ کو کوئی مفاد نہیں تاہم اگر امتحانات کا انعقاد نہ ہوا تو آنے والے دنوں میں سب کے مفادات داؤ پر لگ جائیں گے۔حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ تعلیمی ماہرین کی مدد سے ایسا سانچہ تیار کرے جس سے “سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے” ۔ کرونا خطرناک ہے مگر نیو ورلڈ آرڈر ہو یا قدرت کی آزمائش، ایسی رکاوٹوں کا سامنا آئندہ بھی ہو سکتا ہے تو کیا ہر رکاوٹ کے سامنے سر جھکا کر ہم آنے والی نسلوں کے لیے یہی پیغام چھوڑ جائیں گے کہ تمھارے آبا نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ جناب ڈرنا نہیں لڑنا یہ ہوتا ہے کہ آپ موثر حکمت عملی اپنائیں اور اپنا سفر رفتہ رفتہ ہی سہی جاری رکھیں۔ کیمبرج سسٹم بھی تو منسوخ نہیں کیا گیا تو ہم کبوتر کی طرح آنکھیں کیوں بند کر رہے ہیں۔ یہ نوجوانوں کی حکومت تھی اور نوجوانوں میں ہی خوف پیدا کیا جارہا ہے۔ آپ عدالتیں بند کرنے کی بات نہیں کرتے(جہاں 5 دن کی سزائے قید پانے والا 6 سال قید رہتا ہے اور پھر اس سے معافی مانگ لی جاتی ہے)جہاں انصاف کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ کابینہ اجلاسوں پر پابندی عائد کیجیے۔ وزرا ء کے دوروں کے موقع پرضلعوں کی انتظامیہ اور سیاسی گرگوں کے جم غفیر کو کم کیجیے۔ خدارا! بچوں کو مسابقت کے مثبت اور تخلیقی عمل سے محروم نہ کیجیے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here