سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ پہلی مرتبہ پھولوں کے بادشاہ گلاب کی جینیاتی ترکیب کو سمجھنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ دنیا میں گلابوں کی دو سو سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔
معروف جینیات یا جنیٹِکس کے معروف جریدے ’نیچر جنیٹِکس‘ میں شائع ہونی والی اس تحقیق کے مطابق گلاب کی جینیات کے تفصیلی مطالعے سے حیرت انگیز معلومات سامنے آئی ہیں اور معلوم ہوا ہے کہ گلاب اور سٹرابیری کے درمیان بہت مشابہت پائی جاتی ہے۔
تحقیق میں شامل سائنسدانوں کی بین الاقوامی ٹیم کا کہنا ہے کہ گلاب کی جینیات پر مزید تحقیق کے بعد نئے نئے رنگوں اور نئی خوشبو والے گلاب پیدا کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔
فرانس میں کی جانے والی اس تحقیق کے سربراہ محمد بنداہمنے کا کہنا ہے کہ گلاب کے اس نئے جینیاتی نقشے کو بنانے میں انھیں آٹھ سال لگے جس کے بعد معلوم ہوا ہے کہ گلاب میں خوشبو، رنگ اور پھول کو دیر تک تازہ رکھنے والے جینیاتی اجزا الگ الگ ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کے نتیجے میں ’آپ کے ہاتھ میں گلاب کی تاریخ کی ایک کتاب آ گئی ہے۔ ایک ایسی کتاب جس کی مدد سے ہم گلاب، اس کی تاریخ اور اس کے اُس ارتقائی سفر کو سمجھ سکتے ہیں جس سے گزر کر یہ پھول ہمارے گھروں تک پہنچا۔‘
فرانس، جرمنی، چین اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے چالیس ماہرین کے اشتراک سے کی جانے والی یہ تحقیق ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ گلاب اپنے اندر اتنے مختلف رنگ اور خوشبوئیں کیسے سمیٹے ہوئے ہے۔
جینیاتی تحقیق کے میدان میں اِن نئی معلومات کے بعد گلاب اگانے والوں کو پھول کی ایسی نئی اقسام پیدا کرنے میں مدد ملے گی جو آپ کے گلدان میں زیادہ عرصے تک تازہ رہیں گے اور پودے کو خراب کرنے والے کیڑوں مکوڑوں کا بہتر مقابلہ کر سکیں گے۔
حالیہ تحقیق نہ صرف گلاب بلکہ ’گلابیہ گھرانے‘ کے دیگر پودوں، مثلاً سیب، ناشپاتی اور سٹرابیری کی جینیاتی ساخت پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
ڈاکٹر بنداہمنے کے بقول ’گلاب اور سٹرابیری ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں.