سما کی محنت بلآخر رنگ لے آئی

0
1003

سما شبیر عام کشمیری لڑکیوں سے محض اس لیے مختلف نہیں ہیں کہ انھوں نے انڈیا بھر میں منعقدہ بارہویں جماعت کے وفاقی امتحانات میں مقبوضہ کشمیر سے ٹاپ کیا۔
وہ اس لیے بھی مختلف ہیں کہ ان کے والد شبیر احمد شاہ سینیئر علیحدگی پسند رہنما ہیں جنھوں نے اب تک 31 سال مختلف جیلوں میں گزارے ہیں۔
بارہویں جماعت میں داخلہ لیتے ہی سما کے والد شبیر شاہ کو قانون نافذ کرنے والے سرکاری ادارے (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ) نے خفیہ ذرائع سے رقوم لے کر مسلح شورش کو فنڈ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔
امتحانات کی تیاری کے دوران جب سما دلی کی تہاڑ جیل میں والد سے ملنے جاتیں تو انھیں پانچ گھنٹے انتظار کرنا پڑتا، لیکن وہ یہ وقت جیل کے باہر پڑھائی میں صرف کرتی تھیں۔
سما کہتی ہیں: ’ویسے بھی کشمیر میں اگر آپ کے ساتھ کچھ نہیں ہوا پھر بھی حالات کا اثر آپ کے دل و دماغ پر پڑتا ہے، لیکن میں ذاتی طور پریشان تھی، میرے بابا جیل میں تھے اور ملاقات اس قدر مشکل تھی کہ ایک دن جیل کے باہر انتظار کرنا پڑتا تھا، لیکن میں کتابیں ساتھ لے جاتی تھی اور انتظار کے دوران جیل کے باہر پڑھتی تھی۔‘
سما کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد سے متاثر ہوئیں کہ وہ سالہاسال سے قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود اپنے مقصد کے لیے کوشاں ہیں، اس لیے انھوں نے بھی طے کر لیا کہ وہ اُن کے لیے فخر کا باعث بن کر دکھائیں گی۔
سما شاہ کی والدہ سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں اور وہ خود انصاف کی لڑائی لڑنے کے لیے وکالت کا پیشہ اختیار کرنا چاہتی ہیں۔

سما شاہ بڑی ہو کر وکیل بننا چاہتی ہیں
یہ پوچھنے پر کہ اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں مظاہروں میں حصہ لیتے ہیں لیکن انھوں نے سارا وقت امتحان کی تیاری میں صرف کیا۔ سما کہتی ہیں کہ انھوں نے بچپن سے اپنوں کے ساتھ ہو رہی ناانصافیوں کا طویل سلسلہ دیکھا ہے۔
’میری لڑائی قانونی ہو گی، اسی لیے میں نے ڈاکٹر یا انجنیئر بننا نہیں چاہا، میں وکیل بنوں گی، اور کشمیر ہو یا کوئی اور جگہ میں ناانصافیوں کے خلاف اپنی تعلیم اور اپنا ہنر بھرپور استعمال کروں گی۔‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here